ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر وقت گونجنے والی آواز اذان ہے جوکہ ہر وقت کانوں میں رس گھولتی ہے۔ ہر روز انڈونیشیا کے مشرقی جزائر سے فجر کی اذان کا آغاز ہوتا ہے۔ (یہ مسلم ممالک کا بائیو ڈیٹا ہے ورنہ پہلا علاقہ جہاں سورج کی کرن اترتی ہے اور عیسائی اپنا کرسمس جس شہر سے شروع کرتے ہیں وہ نیوزی لینڈ کا علاقہ جیس بومہے لیکن فجی جزیرے کے باشندے اس کو اپنا حق گردانتے ہیں۔ ورلڈ میپ کے مطابق مشرق میں سب سے پہلا شہر Chathan island کا علاقہ Grave of last moriori ہے۔ اس کیلئے رابرٹ رپلے Le roy robert riply (1949ء) کی مشہور کتاب Believe it or not کے والیم 2 کا مطالعہ بھی سود مند رہے گا) اور بیک وقت ہزاروں مؤذن اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا اعلان کرتے ہیں۔ مشرقی جزائر سے یہ سلسلہ مغربی جزائر تک چلا جاتا ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد سماٹرا کے دیہات اور قصبات میں اذانیں شروع ہوجاتی ہیں اور یہ سلسلہ ایک گھنٹے بعد ڈھاکہ پہنچتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ابھی اذانوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ کلکتہ اور سری لنکا میں اذان شروع ہوجاتی ہیں‘ دوسری جانب کلکتہ سے یہ سلسلہ ممبئی تک پہنچتا ہے اور پورے بھارت کی فضا توحید و رسالت کے اعلان سے گونج اٹھتی ہے۔ بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق سری نگر اور سیالکوٹ میں فجر کی اذان کا وقت ایک ہی ہے جبکہ سیالکوٹ سے کراچی، کوئٹہ اور گوادر تک چالیس منٹ کا فرق ہے۔ اس عرصہ میں پاکستان میں فجر کی اذانیں گونجتی ہیں۔ پاکستان میں یہ سلسلہ شروع ہونے سے پہلے افغانستان اور مسقط میں اذانیں شروع ہوجاتی ہیں۔ مسقط کے بعدبغداد تک ایک گھنٹے کا فرق ہے۔ اس عرصہ میں سعودی عرب، یمن، متحدہ عرب امارات، کویت اور عراق تک اذانیں گونجتی رہتی ہیں۔ بغداد سے اسکندریہ تک پھر ایک گھنٹے کا فرق ہے۔ اس وقت شام، مصر، سوڈان، صومالیہ میں اذانیں ہوتی ہیں۔ اسکندریہ اور استنبول ایک ہی طول و عرض پر واقع ہیں وہاںسے مشرقی ترکی تک ڈیڑھ گھنٹے کا فرق ہے۔ اس عرصہ میں لیبیا اور تیونس میں اذانیں شروع ہونے لگتی ہیں۔ یوں فجر کی اذان جس کا آغاز انڈونیشیا کے مشرقی جزائر سے شروع ہوا تھا، ساڑھے نو گھنٹوں کا طویل سفر طے کرکے بحراوقیانوس تک پہنچنے سے پہلے مشرقی انڈونیشیا میں ظہر کی اذان کا وقت ہوجاتا ہے۔ اس طرح کرہ ارض پر ایک بھی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب سینکڑوں، ہزاروں لاکھوں مؤذن اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا اعلان نہ کررہے ہوں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ اذان کی ابتداء:جب حضرت آدم علیہ السلام کا ہندوستان میں نزول ہوا تو اس سرزمین کے ماحول سے انہیں وحشت ہوئی۔ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہوںنے اس وحشت کو دور کرنے کیلئے اس زمین پر سب سے پہلی اذان دی تھی۔ (حلیۃ الاولیاء صفحہ۳۰۹ جلد ۲، ابو نعیم اصفہانی (۴۳۰ھ) موقع الوراق) ثابت ہوا کہ وحشت دور کرنے کیلئے سب سے اچھی چیز اذان ہے۔٭ ایک دفعہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ گھر میں غمگین بیٹھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور فرمایا: علی کے کان میں اذان دو، اس سے غم دور ہوجاتا ہے۔ (مواہب الجلیل فی شرح مختصر خلیل صفحہ ۴۴۳ جلد۱ شمس الدین ابو عبداللہ مالکی (۹۵۴ھ، مطبع دارالفکر(۱۴۱۲)
حدیث حسن تسلسل بالاذان :حضرت ملا علی قاری (۱۰۱۴ھ) مرقاۃ المفاتیح میں لکھتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی غم کی کیفیت میں اذان والی حدیث کے ہر راوی نے اپنے دور میں تجربہ کیا اور اسے نافع پایا حتیٰ کہ امام دیلمی نے روایت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر کسی انسان یا چوپائے کی بدخلقی ملاحظہ کرو تو اس کے کان میں اذان دیا کرو۔ (مرقاۃ المفاتیح صفحہ ۸۶ جلد ۳ باب الاذان، ملا علی قاری، مکتبہ المشکاۃ الاسلامیہ)امام ابن جزری شافعی (۸۳۳ھ) اسی روایت کے متعلق فرماتے ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کا تجربہ کیا تو انہوںنے اسے فائدہ بخش پایا۔ ٭ حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے اس کا تجربہ کیا تو انہوںنے بھی اسے فائدہ بخش پایا۔٭ حضرات حفص بن غیاث، عمر بن حفص، حسن بن ہارون، فضیل، عبداللہ بن موسیٰ ابو عبدالرحمن اسلمی اور ابوبکر رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی ایسے ہی فائدہ مند پایا۔
٭ عبدالرحمن جزری فرماتے ہیں کہ ابن ناصر کے بقول اور میرے شیخ امام محدث جمال الدین کے بقول جس نے بھی اس کا تجربہ کیا اسے فائدہ مند ہی پایا۔ میں نے کسی راوی کا نہیں سنا کہ اس نے کرب و شدت میں اسے آزمایا ہو اور اسے فائدہ نہ ہوا ہو۔ (مناقب الاسد الغالب، صفحہ۳۶ جلد۱، شمس الدین ابن الجزری (۸۳۳ھ) مکتبۃ القرآن مصر) ہمیں بھی چاہیے کہ کسی بھی غم، دکھ، تکلیف میں کسی پیارے کے وصال کے بعد اسکی قبر پر یا کسی اچانک حادثے کی پریشانی میں اذان دینی چاہیے۔ اذان کا جواب:جب بھی اذان ہو اس کو قبول کرتے ہوئے جواب دینا چاہیے اور یہ سنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے عورتو! جب تم (بلال) حبشی کی اذان و اقامت سنو تو جس طرح وہ کہتا ہے تم بھی کہا کرو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہر کلمہ کے بدلے ایک لاکھ نیکی عطا کرے گا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ صرف عورتوں کیلئے ہے یا مردوں کیلئے بھی؟ تو فرمایا: اے عمر! مردوں کیلئے دوگنا ثواب ہے۔
ہر اذان میں 15 کلمے ہیں اور نماز فجر میں 17کلمے۔ اس طرح 15=100000x15 لاکھ 60=4x لاکھ+ نماز فجر 17 لاکھ‘ ٹوٹل 77 لاکھ نیکیاں صرف اذان کا جواب دینے پر‘ جو اللہ ہر انسان کو روزانہ 77 لاکھ نیکیاں عطا فرمادے وہ کیسا کریم ہوگا؟ (المعجم الکبیر ص:۱۶، ج ۲۴ رقم الحدیث ۲۰۰۴۹، سلیمان بن احمد، الطبرانی مکتبۃ العلوم والحکم،الموصل ۱۴۰۴)قیامت کے ہولناک دن جب آخری اذان دی جائے گی تو جنتی اونٹنی پر سوار حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ اذان دیں گے اور جب وہ اشھدان محمدارسول اللہ کے لفظوں پر پہنچیں گے تو اولین و آخرین کے مومنین اس کو سنیں گے۔ اس وقت جو جوان کلموں کا جواب دیگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرے گا وہ مقبول ہوگا اور جو انکار کردے گا وہ مردود ہوجائے گا۔ ٭ اور ابن زنجویہ کی فضائل میں ہے:
(سبل الھد صفحہ ۴۵۳ جلد۱۲، محمد یوسف صالحی (۹۴۲ھ) مجلس الاعلی للشئون الاسلامیہ مصر۔ مکتبۃ المسجد النبوی) جب انبیاء کرام اور ان کی امتیں اشھدان لاالہ الا اللہ اور اشھد ان محمدارسول اللہ سنیں گے تو ان کلمات کا جواب دیتے ہوئے کہیں گے اشھد… ہم ایمان لاتے ہیں۔ گویا اذان ہی وہ نغمہ لاہوتی ہے جو کائنات کی ابداء سے انتہا تک گونجتا رہے گا۔ ہمیں بھی اس نغمے سے تمسک کرکے اپنی نجات یقینی بنانی چاہیے۔ (بشکریہ! دعوت تنظیم الاسلام)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں